کیا فرماتے ہیں علمائے کرام و مفتیان عظام مسئلہ ذیل میں کہ زید سنی عالم امام ہے اس نے ایک نماز جنازہ پڑھائی وہابیہ دیابنہ کو جنازہ کی صفوں سے نکال کر اب وہابیہ دیابنہ کے ساتھ محلے والے بھی دلیل طلب کررہے ہیں کہ نماز جنازہ سے نکالنا کہاں لکھا ہے لہٰذا حضور والا سے گذارش ہے کہ قران و حدیث کی روشنی میں جواب عنایت فرما کر عند اللہ ماجور ہوں
المستفتی ۔ محمد علاء الدین صاحب گریڈیہ جھارکھنڈ
الجواب اللھم ھدایۃ الحق و الصواب
صورت مسئولہ میں وہابیہ دیابنہ و غیر مقلدین زمانہ اپنے عقائد باطلہ کفریہ کی وجہ سے کافر و مرتد ہیں ان کی نماز نماز ہی نہیں تو جماعت میں ہونا نہ ہونے کے مساوی ہے گویا اتنی جگہ خالی رہے گی جس سے قطع صف لازم آئے گا اور قطع صف حرام ہے جس سے نماز میں کراہت آئے گی سنیوں پر لازم ہے کہ انہیں اپنی صفوں میں آنے سے روکیں اگر قدرت کے باوجود نہیں روکیں گے تو سب کے سب گنہگار ہوں گے اور جو لوگ ان کے جماعت میں شریک ہونے پر راضی ہیں وہ سخت گنہگار مستحق غضب جبار ہیں ان پر لازم ہے کہ صدق دل سے توبہ کریں۔ فقیہ فقید المثال سیدی اعلیٰ حضرت الشاہ امام احمد رضا خان فاضلِ بریلوی لقد رضی المولیٰ عنہ تحریر فرماتے ہیں کہ ” غیر مقلدین زمانہ بحکم فقہاء و تصریحات عامہ کتب فقہ کافر تھے ہی جس کا روشن بیان رسالہ الکوکبۃ الشھابیہ رسالہ السیوف و رسالہ النہی الاکید وغیرہا میں ہے اور تجربہ نے ثابت کردیا کہ وہ ضرور منکرین ضروریات دین ہیں ان کے منکروں کے حامی و ہمراہ تو یقینا قطعا اجماعا ان کے کفر و ارتداد میں شک نہیں۔ اور کافر کی نماز باطل تو وہ جس صف میں کھڑے ہوں گے اتنی جگہ خالی ہوگی اور صف قطع ہوگی اور قطع صف حرام ہے۔ رسول اللہ ﷺ ارشاد فرماتے ہیں ” من وصل صفا وصلہ اللہ و من قطع صفا قطعہ اللہ ” یعنی جو صف کو ملائے اللہ اپنی رحمت سے اسے ملائے اور جو صف قطع کرے اللہ اپنی رحمت سے اسے جدا کرے۔ تو جتنے اہلسنت ان کی شرکت پر راضی ہونگے یا باوصف قدرت منع نہ کریں گے سب گنہگار و مستحق وعید عذاب ہوں گے اور نماز میں بھی نقص آئے گا کہ قطع صف مکروہ تحریمی ہے اگر صرف ایک ہی صف ہو اور اس کے کنارے پر غیر مقلد کھڑا ہو تو اس صورت میں اگر چہ فی الحال قطع صف نہیں مگر اس کا احتمال و اندیشہ ہے کہ ممکن کہ کوئی مسلمان بعد کو آئے اور اس غیر مقلد کے برابر یا دوسری صف میں کھڑا ہو تو قطع ہوجائے گا اور جس طرح فعلِ حرام حرام ہے یونہی وہ کام کرنا جس سے فعل حرام کا سامان مہیا اور اس کا اندیشہ حاصل ہو وہ بھی ممنوع ہے۔ لہذا حدود اللہ میں فقط وقوع کو منع نہ فرمایا بلکہ ان کے قرب سے بھی ممانعت ہوئی کہ تلك حدود الله فلا تقربوها یعنی یہ اللہ کے حدود ہیں ان کے قریب نہ جاؤ اس کے باوجود مع ہٰذا ابن حبان کی حدیث میں ہے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ ” لا تصلوا علیھم و تصلوا معھم” یعنی نہ ان کے جنازہ کی نماز پڑھو نہ ان کے ساتھ نماز پڑھو بد مذہبوں کے ساتھ نماز نہ پڑھو ( فتاویٰ رضویہ مترجم جلد 7 صفحہ 151 رضا فاؤنڈیشن لاہور)
ایسا ہی فتاویٰ امجدیہ میں تحریر ہے کہ ” غیر مقلدین کا جماعت اہلسنت میں شامل ہونا قطع صف ہوگا اور یہ مکروہ ہے ( کتاب الصلوٰۃ ، باب الجماعت ، جلد 1 ص 168 )
ایسا ہی فتاویٰ فیض الرسول میں ہے کہ ” جماعت میں غیر مقلدوں کے شامل ہونے سے بے شک نماز میں خرابی پیدا ہوتی ہے اس لیے کہ ان کی نماز باطل ہے تو جس صف کے بیچ وہ کھڑے ہوتے ہیں شریعت کے نزدیک وہ جگہ خالی ہوتی ہے جس سے صف قطع ہوتی ہے اور قظع صف حرام ہے حنفیوں پر لازم ہے کہ ان کو اپنی مسجد میں آنے سے منع کریں اگر قدرت کے باوجود ان کو نہیں روکیں گے تو گنہگار ہوں گے ( کتاب الصلوٰۃ ، باب الجماعت ، جلد 1 ص 107 ) واللہ و رسولہ اعلم بالصواب
کتبه: محمد ارشد رضا امجدی فیضی
المتخصص فی الفقہ الحنفی
دارالعلوم اہلسنت فیض الرسول براؤن شریف سدھارتھ نگر یوپی
Leave a Reply