فتویٰ نمبر: 0001

کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیان شرع متین اس مسئلہ میں موضع بھلواں نارائن پور یوپی میں تقریب دو سو مسلم گھر کی آبادی ہے اور ان کے درمیان ایک مسجد ہے جس میں بہت پہلے سے ہی نماز جمعہ قائم ہے اور جمعہ کی نمازیوں کی تعداد بالغ و نابالغ سب لے کر ڈھائی سے تین سو کے قریب ہے بھلواں ایک گاؤں ہے اس کے شمال میں چار کیلومیٹر کے فاصلے پر عدلہاٹ بازار ہے جہاں تھا نہ بھی ہے اب موضع بھلواں میں نماز جمعہ کے لیے کیا حکم شرع ہو گا ؟ کیا یہاں کے مسلمانوں پر نماز جمعہ ادا کر لینے سے ظہر ساقط ہو گی یا جمعہ کے ساتھ نماز ظہر ادا کرنا فرض ہے اور ظہر ادا کرے تو فردا فرد آیا با جماعت قائم کرنا ضروری ہے اور اگر کوئی شخص یہ کہے کہ یہ نیا کام ہے جیسے جمعہ ہوتا تھا ویسے ہی ہونا چاہیے اگرنئی چیز ایجاد کریں گے یعنی ظہر کی جماعت کریں گے تو میں اس مسجد میں نماز نہیں پڑھوں گا تو ایسے شخص کے لیے کیا حکم شرع ہے از روئے شرع مدلل و مفصل جواب عنایت فرما کر عند اللہ ماجور ہوں۔ فقط والسلام

المستفتى: امام مسجد هذا، محمد مهدی حسن رضوی
بھلواں نارائن پور، مرزا پور (یوپی) مرزاپور

الجواب بعون الملك الوهاب

مذہب حنفی میں صحت جمعہ کے لیے شہر یا فنائے شہر ہونا شرط ہے ، ائمہ احناف دیہات میں جمعہ کی نماز ناجائز و ممنوع فرماتے ہیں یہی قول امیرالمومنین سیدنا علی المرتضیٰ کرم اللہ وجہ الکریم کا ہے، فرماتے ہیں:

"لا جمعة ولا تشريق ولا صلاة فطر ولا اضحى الافي مصر جامع او مدينة عظيمة” (مصنف ابن شیبہ، ج: ۳ ج : ۱۷۷)

یہی مذہب ہمارے امام اعظم کے استاذ اور سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ تعالی عنہما کے تلمیذ خاص سیدنا امام عطا بن ابی رباح اور امام ابراہیم نخعی، امام مجاہد ، امام ابن سیرین اور امام سفیان ثوری رضی اللہ تعالی عنہم کا ہے۔

در مختار میں ہے:

صلاة العيد في القرى تكره تحریما ای لانه اشتغال بما لا يصح لان المصر شرط الصحة

رد المحتار میں ہے:

”و مثله الجمعة” (ج: ص: ۴۶)

پھر جب گاؤں میں نماز جمعہ جائز وصحیح ہی نہیں تو اس کے پڑھ لینے سے فرض ظہر بھی ذمہ سے ساقط نہ ہو گا بلکہ باجماعت نماز ظہر بھی ادا کی جائے گی کہ فرض ساقط ہو جائے۔

عالمگیری میں ہے:

ومن لا تجب عليهم الجمعة من اهل القرى والبوادى لهم ان يصلوا الظهر بجماعة يوم الجمعة باذان و اقامة (ج:١ ص: ۲۰۵)

بہار شریعت میں ہے : ” گاؤں میں جمعہ کے دن بھی ظہر کی نماز اذان واقامت کے ساتھ باجماعت پڑھیں۔ (ج: اص: ۷۷۴)

لہذا صورت مسئولہ میں نماز ظہر بھی باجماعت ادا کرنی ہوگی ، اور چوں کہ جمعہ قدیم زمانے سے قائم ہے تو اس سے بھی منع نہ کیا جائے اور جو لوگ با جماعت نماز ظہر پڑھنے کو نیا کام کہتے ہیں وہ حکم شرع سے غافل ہیں ایسے لوگوں کو اچھے اور نرم انداز میں سمجھایا جائے ۔ فتاویٰ رضویہ میں ہے : ” با جماع جملہ ائمہ حنفیہ اس میں جمعہ و عیدین باطل ہیں خود نہ پڑھیں گے حکم پوچھا جائے گا تو فتوی دیں گے جہاں نہیں ہوتے قائم نہ کریں گے بایں ہمہ اگر عوام پڑھتے ہوں منع نہ کریں گئے (ملتقطاً ، ج : ۸ ص : ۴۳۹)

فتاوی مفتی اعظم میں ہے: ”فرض ظہر بھی پڑھنے کی تاکید کی جائے، دیہات میں جمعہ پڑھنا مذہب حنفی میں ہرگز جائز نہیں مگر عوام پڑھتے ہیں اور منع کرنے سے باز نہ آئیں گے فتنہ برپا کریں گے تو ان کو اتنا ہی کہنا ہوگا کہ بھائیو ظہر کے چار رکعت بھی پڑھو کہ تم پر ظہر ہی فرض ہے، جمعہ پڑھنے سے تمہارے ذمہ سے وہ ظہر ساقط نہ ہوئی ، وہ فرض ظہر بھی جماعت ہی سے پڑھنے کو کہا جائے کہ بے عذر ترک جماعت گناہ ہے ( ج ۳ ص ۱۲۴: ) واللہ تعالیٰ اعلم

كتبه

محمد امتیاز امجدی غفرلہ
خادم تاج الشریعہ دار الافتاء لوہتہ بنارس
٧ محرم الحرام ۱۴۴۶ ھ/ ۱۴ جولائی ۲۰۲۴ء

قد صح الجواب ، والله تعالى اعلم بالصواب

واجد علی امجدی
خادم تاج الشریعہ دار الافتاء لوہتہ بنارس

الجواب صحيح، والله تعالى اعلم بالصواب

فقیر فیضان المصطفی قادری غفرله
بانی و سر پرست اعلیٰ جامعہ امام اعظم ابو حنیفہ لکھنو