تاج الشریعہ دارالافتاء

جامعہ تاج الشریعہ، بنارس

Advertisement

محراب مسجد سے الگ مصلیٰ بچھانااور اعضاء وضو کو دامن سے خشک کرنا کیساہے؟

کیا فرماتے ہیں علماے دین و مفتیان شرع متین مسئلہ ذیل میں کہ
(۱)پنج وقتہ نماز میں جبکہ جماعت بالکل قلیل ہو موسم کے لحاظ سے یعنی جاڑے یا گرمی کے حساب سے مصلی کو محراب سے ہٹا کر داہنے یا بائیں یا دوسری یا تیسری صف میں بچھا کر جماعت قائم کرنا کیسا ہے مدلل جواب سے نوازیں ؟ (۲)نیز یہ بھی بتائیں کہ اعضاء کو آستین یا دامن سے سکھانا کیسا ہے ؟
المستفتی : جملہ مصلیان مسجد،رحیم پور،لوہتہ
الجواب بعون الملک الوہاب
(۱) امام کو حکم ہے کہ وقت جماعت وہ درمیان صف کھڑا ہو ، حدیث پاک میں فرمایا:’’ توسطو الامام وسدو ا الخلل ( اخرجہ البیہقی فی السنن الکبری)‘‘ رد المختار میں ہے:’’ السنۃ ان یکون الامام ازاء وسط الصف‘‘ ( ج :۲ ص ۳۱۰: ) اور چونکہ مساجد میں جو محراب بنائی جاتی ہے وہ مسجد کی دیوار قبلہ کے وسط میں بنتی ہے ، جب امام وقت جماعت اس میں کھڑا ہوتا ہے تو اس کا درمیان صف کھڑا ہونا پا لیا جاتا ہے اور یہی سنت و مقصود شریعت ہے، رد المختار میں ہے:’’ ان المحاریب ما نصبت الا وسط المساجد و ھی قد عینت لمقام الامام‘‘ ( ج :۲ ص ۳۱۰: ) پس صورت مسئولہ میں اگر وہ جماعت جماعت اولی ہو اور بعد قیام جماعت اور لوگوں کا شامل جماعت ہونا متوقع ہو تو امام کا محراب صوری چھوڑ کر اس کے دائیں بائیں کسی کونے میں کھڑے ہو کر جماعت کرنا مکروہ و خلاف سنت و مخالف عمل امت ہے ، ہاں اگر دوسری تیسری یا آخری در میں محراب صوری کی محاذات میں جو کہ وسط مسجد ہے کھڑے ہو کر امام قیام جماعت کرے تو کچھ حرج نہیں ، فتاویٰ ھندیہ میں ہے:’’ و ینبغی الامام ان یقف بازاء الوسط فان وقف فی میمنۃ الوسط او فی میسرتہ فقد اساء لمخالفۃ السنۃ ھکذا فی التبیین‘‘ (ج :۱، ص: ۱۴۷)
رد المختار میں ہے: ’’ فی معراج الدرایۃ من باب الامامۃ : الا صح ما روی عن ابی حنیفۃ انہ قال: اکرہ للامام ان یقوم بین الساریتین او زاویۃ او نا حیۃ المسجد او الی ساریۃ لانہ بخلاف عمل الامۃ ۔ و فی التاتر خانیۃ : و یکرہ ان یقوم فی غیر المحراب الا لضرورۃ و مقتضاہ ان الامام لو ترک المحراب و قام فی غیرہ یکرہ و لو کان وسط الصف ، لانہ خلاف عمل الامۃ و ھو ظاھر فی الامام الراتب دون غیرہ و المنفرد ‘‘ ( ج: ۲، ص: ۴۱۴ ؍ ۴۱۵)
جد الممتار میں ہے: ’’ قولہ:ان السنۃ ان یقوم الامام ازاء وسط الصف ” ای الصف الکامل فان وسطہ لا یکون الا ما یحاذی المحراب و الا فیمکن ان یکون وسط الصف الناقص خلافہ و حینئذ یکرہ کما سیصرح بہ ثم اعلم ان ھذا الکلام انما ھو فی الجماعۃ الاولی کما یشیر الیہ قولہ فی الامام الراتب واماالثانیۃفمامورباالتخلف عن الموضع الاول وتبدیل الھیئۃ‘‘(ج:۳،ص:۴۰۳)

بہار شریعت میں ہے’’امام جماعت اولی کو مسجد کے زاویہ و جانب میں کھڑا ہونا بھی مکروہ ، اسے سنت یہ ہے کہ وسط میں کھڑا ہو اسی وسط کا نام محراب ہے ، خواہ وہاں طاق معروف ہو یا نہ ہو تو اگر وسط چھوڑ کر دوسری جگہ کھڑا ہو اگر چہ اس کے دونوں طرف صف کے برابر برابر حصّے ہوں مکروہ ہے ۔( ج: ۱،ص: ۶۳۵) 
 (۲) بہتر ہے کہ بعد وضو اعضا کو نہ پوچھے ، ہاں اگر ضرورت ہو تو اس طرح پوچھے کہ بالکل خشک نہ ہوں اور دامن سے پوچھنے کو علماء نے سبب نسیان بتایا ہے ، رد المحتار میں ہے کہ:’’زادبعضھم مما یورث النسیان اشیاء ، منھا : مسح وجھہ اویدیہ بذیلہ‘‘

(ج: ۱،ص:۳۸۵)
فتاویٰ رضویہ میں ہے : ’’بہتر ہے کہ بے ضرورت نہ پوچھے ، امراء و متکبرین کی طرح اس کی عادت نہ ڈالے ، اور پوچھے تو بے ضرورت بالکل خشک نہ کرلے قدرے نم باقی رہنے دے۔ ( ج:۱، ص:۳۱۴) واللہ تعالیٰ اعلم

قد صح الجواب ،واللہ تعالیٰ اعلم بالصواب
واجد علی امجدی
خادم تاج الشریعہ دار الافتاء لوہتہ بنارس
کتبـــــــــــــــــــــہ
محمدامتیاز امجدی غفرلہ
خادم تاج الشریعہ دار الافتاء لوہتہ بنارس

۴؍محرم الحرام۱۴۴۵ھ۲۳؍جولائی۲۰۲۳ء
الجواب صحیح ،واللہ تعالیٰ اعلم بالصواب
فقیر فیضان المصطفیٰ قادری غفرلہ
بانی وسرپرست جامعہ امام اعظم ابو حنیفہ ،لکھنؤ

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے